ملالہ پر مہربانیاں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ملالہ پر مہربانیاں …؟؟
مولانا محمد کلیم اللہ
وطن عزیز پاکستان میں آئے روز قتل وغارت گری ، بد امنی ،دہشت گردی اور لاقانونیت کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی حدود میں غیر ملکی عسکری اور سیاسی مداخلت نے یہاں کے ہر باسی اور باشندے سے سکون ، امن اور آزادی کو چھین لیاہے۔ ایسے حالات میں کِس کِس کا رونا رویا جائے ؟؟ایک طویل ترین فہرست ہے ……….!
لیکن اب یہ مسئلہ بھی ”مہربان میڈیا “اور”ہم درد حکمران “طبقے نے حل کر دیا ہے۔ کیسے ؟
اب بتایا جاتا ہے ……رمشا اگرچہ مسیحی لڑکی ہے ٹھیک ہے اس نے قرآن کریم کے مقدس اوراق کی بے حرمتی کر کے جلایا لیکن ہے تو بے چاری 14 سال کی ناسمجھ بچی ناں ؟؟
آسیہ بی بی اگرچہ عیسائی مذہب رکھتی ہے مانا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے گستاخی کی لیکن عورت زاد ہے اس کو چھوڑ دینا چاہیے ناں!!
یہ بیچاری ملالہ ہے کیا ہوا کہ اس نے یہ کہہ دیا کہ برقعے کو دیکھ کر مجھے پتھر کا دور یاد آتا ہے اور داڑھی والا دیکھ کر فرعون۔ اس کے باوجود بھی، ہے تو14 سال کی کم عمر ناسمجھ بچی!
مسئلے کا حل یہی ہے کہ ان جیسی ”مظلوم خواتین“کے حقوق پر بولو، لکھو ،اپنی سیاست بھی چمکاؤ لیکن اگر کہیں ملکی یا دینی مسئلہ آجائے تو ایسی خواتین کا تذکرہ عالمی امن کے لیے خطرہ بن سکتا ہے لہٰذا باقیوں کا تذکرہ رہنے دیجیے۔ اس لیے تم یوں نہ کہو کہ
لال مسجد میں ہزاروں ….ملالہ کی ہم جنس ….طالبات خاک وخون میں تڑپ گئیں ان پر فاسفورس بم پھینکے گئے زہریلے کیمیکل نے ان کے اعضاء کی شناخت مشکل کر دی ، ان کے والدین ، بھائی ،رشتے دار اپنی ان معصوم کلیوں کی لاشیں گودمیں لیے واپس گھروں کو گئے۔

کوئی ایک قلم نہیں چلا

کوئی زبان نہیں بولی

کوئی یوم دعا نہیں منایا گیا

کہیں سبز ہلالی پرچم ان کے غم میں سرنگوں نہیں ہوا

کسی تعلیمی یا غیر تعلیمی حکومتی ادارے میں کہیں سوگ کا نشان نظر نہ آیا

کہیں ایک منٹ تو کجا ایک سیکنڈ کی خاموشی اختیار کر کے ان سے اظہار ہمدردی نہیں کیا گیا۔
وہ جیل کی بیرکوں میں کال کوٹھڑی کو مسکن بنانے والی ،اپنی ظالم زندگی کی سانسیں گننے والی ”عافیہ “ ہمیں دیکھ کر مسکرا رہی ہے۔ صبح وشام کی قید وبند کی صعوبتیں ، اذیتیں ، زیادتیاں اور جنسی تشدد؛ وہ کون سا دکھ ہے جو زنداں کی چار دیواری میں ”قوم کی بیٹی “ نہیں سہہ رہی ؟؟

کہاں ہیں غیروں کے اشارے پر ناچنے والی کٹھ پتلیاں ؟

کہاں ہیں امن۔ امن۔ امن! کی رٹ لگانے والی بے لگام زبانیں ؟

کہاں ہیں بال کی کھال اتارنے والے میڈیائی شعبدہ باز ؟

کہاں ہیں ظلم کے منظر نامے شائع کرنے والے؟

کہاں ہیں کرائم کے خلاف صحافتی اسلحے سے مسلح جنگجو؟

کہاں ہے میڈیا؟ کہاں ہیں حکمران ؟

کہاں ہیں صدارت کا تاج سجانے والے ؟

کہاں ہیں وزارت عظمیٰ ، وزارت خارجہ ، وزارت داخلہ پر براجمان ملک کی تقدیر بنانے والے ؟

کہاں ہیں انصاف کے ترازو میں ”بندر بانٹ“ کرنے والے ؟
تم ایک ملالہ کو روتے ہو؟ظالمو !تم عافیہ پر ہونے والی جان لیوا داستان ظلم سے کیوں آنکھیں چراتے ہو ؟ کیوں ؟…..تم لال مسجد میں فاسفورس بموں سے کوئلہ ہوجانے والی ہزاروں لاشیں کس پتھر کے دل میں دفن کیے بیٹھے ہو ؟ اور تو اورتمہیں صرف ملالہ پر ہی دکھ کیوں ہے؟ اسی کے ساتھ حملے کا شکار ہونے والی دوسری دو بچیاں شازیہ اور کائنات پر تم ٹسوے کیوں نہیں بہاتے؟
وہ بے چاریاں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں :”انکل میڈیا! انکل امریکہ!ہمیں بھی گولیاں لگی ہیں ہم بھی ملالہ کے ساتھ تو تھیں ہمیں کوریج نہیں دی گئی؟ ہمیں امداد کیوں نہ دی گئی؟“اگر ملالہ پر ظلم ہوا ہے تو اس جیسے واقعات میری اس دھرتی پر ہر روز بڑی بے رحمی سے ہو رہے ہیں ، کبھی اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری انکل ”بان کی مون“نے نیک تمناؤں کا اظہار نہیں کیا۔ ملالہ پر انصاف کی دہائیاں دینے والا ہر اسلام دشمن طبقہ خصوصاً ظالم امریکہ اور اس کے حواری ذہن نشین کر لے مسلمان کو اپنی ہر بہن ایسے ہی عزیز ہے جیسے تمہیں آج اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ملالہ یوسف زئی۔

ملالہ کا ایشو سامنے لا کر تم نے گستاخانہ فلم کے خلاف اہل اسلام کے عالمی احتجاج کا رخ موڑنے کی کوششیں کی ہیں۔

ملالہ پرکیا اس لیےتو نہیں روتے ہو کہ تم یہ باور کرانے میں کامیاب ہو سکو کہ پاکستان میں دہشت گردی کا دیو سب کو نگل رہا ہے اور اس کے بعد عالمی دہشت گرد امریکہ کو ”امن آپریشن“ کا جواز فراہم کیا جاسکے ؟

ملالہ تم کو اس لیے عزیز ہے کہ اس نے اپنے والد کے ساتھ پاک فوج کے خلاف یہودی فلم میکر کو انٹرویو دیتے ہوئے ناپاک زبان استعمال کی ہے۔

ملالہ اس لیے تمہیں اس سے خیر خواہی ہے کہ وہ امریکی گماشتوں … رچرڈ ہالبروک اوبامہ کے خصوصی ایلچی ….کے ساتھ خفیہ ملاقاتیں کر کے پاکستان کی بقاء کی دشمن بن چکی تھی۔

ملالہ سے تم اس لیے اس سے اظہار یکجہتی کرتے ہو کہ میڈونا جیسی قابل شرم امریکی رقاصائیں لاس اینجلس میں اپنے برہنہ بدن پر ملالہ کا نام لکھ کر اس سے اظہار یکجہتی کررہی ہیں۔

ملالہ تمہیں عزیز ہے کہ وہ شعار اسلامی کی کھلم کھلا توہین کرتی ہے۔

ملالہ پر تمہاری مہربانیاں اس لیے ہیں کہ وہ قیام امن میں اپنا آئیڈیل اسلام کے سب سے بڑے دشمن امریکہ کے صدر کو قرار دیتی ہے۔
کیا یہ سارا کچھ ریکارڈ پر نہیں ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ نے اس معاملہ کو مظلومانہ رنگ میں پیش کیا اور تم اس پروپیگنڈے کا شکار ہو کر رہ گئے۔ تم نے زمینی حقائق جاننے کی کوشش ہی نہ کی۔ تم نے دشمن کی چال ہی نہ سمجھی ،تف ہے تمہاری خود اعتمادی پر اور تمہاری اس سوچ پر۔ پاکستان میں صرف ایک ملالہ ہی نہیں بلکہ یہاں کی عافیہ بھی ہے یہاں کی وہ بے گناہ عفت مآب لال مسجد میں شہید ہوتی ہزاروں طالبات بھی ہیں۔
یہ بھی سچ ہے کہ ہم اس کا حل وہ نہیں مانتے جو ہوا اور ہم قطعاًاس کے حق میں نہیں کہ یوں کسی بھی بچی کو قتل کرنے کی کوشش کی جائے۔ ہمارے نبی کی تعلیم تو یہ تھی بیٹی؛ بیٹی ہوتی ہے خواہ کافر کی ہی کیوں نہ ہو!ہم قاتلانہ حملے کی مذمت کرتے ہیں اور کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتے۔
لیکن اس کے باوجود بھی منصفو!انصاف کرنا ہو تو سب سے کرنا ورنہ خود انصاف کا خون نہ کرنا ملالہ پاکستانی ہے تو شازیہ اور کائنات بھی پاکستانی ہیں۔ ملالہ پاکستان کا چہرہ ہے تو عافیہ بھی پاکستان کے ماتھے کا جھومر، ملالہ پاکستان کا اعزاز ہے تو لال مسجد میں اپنی جانوں کا نذرانہ دینے والی طالبات بھی پاکستان کا فخر۔ ملالہ صنف نازک ہے تو عافیہ اور لال مسجد کی طالبات بھی صنف نازک۔ آخر یہ فلسفہ کوئی تو انہیں بتائے۔
فغاں میں ، آہ میں ،
 
فریاد

میں ، شیون میں نالے میں

سناؤں درد دل

طاقت اگر ہو سننے والے میں