احناف ڈیجیٹل لائبریری

سورۃ الطور

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
سورۃ الطور
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿ وَ الطُّوۡرِ ۙ﴿۱﴾ وَ کِتٰبٍ مَّسۡطُوۡرٍ ۙ﴿۲﴾ فِیۡ رَقٍّ مَّنۡشُوۡرٍ ۙ﴿۳﴾ ﴾
”طور“
اصل میں اس پہاڑ کو کہتےہیں جس پر سبزہ اگا ہو اور یہاں اس سے مراد ”طور سینا“ ہے۔ اللہ نے قسمیں کھائی ہیں۔ فرمایا:
”وَ الطُّوۡرِۙ﴿۱﴾“
Read more ...

سورۃ الذٰریات

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
سورۃ الذٰریات
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿وَالذّٰرِیٰتِ ذَرۡوًا ۙ﴿۱﴾ فَالۡحٰمِلٰتِ وِقۡرًا ۙ﴿۲﴾ فَالۡجٰرِیٰتِ یُسۡرًا ۙ﴿۳﴾ فَالۡمُقَسِّمٰتِ اَمۡرًا ۙ﴿۴﴾﴾
تین قسم کی مخلوق کی قسم:
Read more ...

سورت قٓ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
سورت قٓ
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿قٓ ۟ وَ الۡقُرۡاٰنِ الۡمَجِیۡدِ ۚ﴿۱﴾ بَلۡ عَجِبُوۡۤا اَنۡ جَآءَہُمۡ مُّنۡذِرٌ مِّنۡہُمۡ فَقَالَ الۡکٰفِرُوۡنَ ہٰذَا شَیۡءٌ عَجِیۡبٌ ۚ﴿۲﴾﴾
سورۃ ق کی اہمیت:
حضرت ام ہشام بنت حارثہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہمارا گھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے ساتھ تھا، دو سال تک ہمارا تنور بھی ایک رہا جس تنور میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روٹیاں پکتیں تھیں اسی میں ہماری روٹیاں بھی پکتی تھیں۔ مجھے سورت ق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سن سن کر یاد ہو گئی کیونکہ جمعے کے دن خطبہ جمعہ میں سورت ق پڑھنا آپ کا معمول تھا۔
Read more ...

سورۃ الحجرات

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
سورۃ الحجرات
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیِ اللہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ اتَّقُوا اللہَ ؕ اِنَّ اللہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۱﴾ ﴾
قرآن کا مخاطب خود کو سمجھیے!
Read more ...

سورۃ الفتح

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
سورۃ الفتح
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿ اِنَّا فَتَحۡنَا لَکَ فَتۡحًا مُّبِیۡنًا ۙ﴿۱﴾ لِّیَغۡفِرَ لَکَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡۢبِکَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکَ وَ یَہۡدِیَکَ صِرَاطًا مُّسۡتَقِیۡمًا ۙ﴿۲﴾ وَّ یَنۡصُرَکَ اللہُ نَصۡرًا عَزِیۡزًا ﴿۳﴾ ﴾
شانِ نزول:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ایک خواب دیکھا کہ آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مسجد حرام میں داخل ہوئے اور عمرہ فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے اس کا تذکرہ فرمایا۔ ہرایک کا شوق بڑھا کہ ہمیں عمرے کے لیے جانا چاہیے۔ فطری شوق تو تھا کیونکہ مہاجرین صحابہ کو مکہ مکرمہ سے نکالا گیا تھا تو ان کا شوق زیادہ تھا۔ انصارِ مدینہ کا بھی شوق تھا کہ ہمیں بھی جانا چاہیے۔
Read more ...

سورۃ محمد

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
سورۃ محمد
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿اَلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللہِ اَضَلَّ اَعۡمَالَہُمۡ ﴿۱﴾ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اٰمَنُوۡا بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ ہُوَ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۙ کَفَّرَ عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ وَ اَصۡلَحَ بَالَہُمۡ ﴿۲﴾﴾
سورت محمد کا ایک نام سورت قتال بھی ہے کیونکہ اس میں جہاد کا تذکرہ بہت زیادہ ہے۔
کفار اور مؤمنین کا انجام:
فرمایا: جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور اللہ کے راستے سے دوسروں کو روکا تو اللہ نے ان کے اعمال ضائع کر دیے ہیں۔
Read more ...

سورۃ الاحقاف

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
سورۃ الاحقاف
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿ حٰمٓ ۚ﴿۱﴾ تَنۡزِیۡلُ الۡکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَکِیۡمِ ﴿۲﴾ مَا خَلَقۡنَا السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَاۤ اِلَّا بِالۡحَقِّ وَ اَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا عَمَّاۤ اُنۡذِرُوۡا مُعۡرِضُوۡنَ ﴿۳﴾﴾
دلائل توحید کا بیان:
یہاں اللہ رب العزت نے توحید پر دلائل بیان فرمائے ہیں اور دلائل کی جتنی قسمیں ہیں ساری بیان فرمائی ہیں۔ دلائل کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں:
Read more ...

سورۃ الجاثیۃ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
سورۃ الجاثیۃ
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿حٰمٓ ۚ﴿۱﴾ تَنۡزِیۡلُ الۡکِتٰبِ مِنَ اللہِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَکِیۡمِ ﴿۲﴾ اِنَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ لَاٰیٰتٍ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ؕ﴿۳﴾﴾
دلائل توحید:
یہاں شروع میں اللہ تعالیٰ نے دلائلِ توحید بیان فرمائے ہیں اور طرز میں تنوع رکھا ہے، الگ الگ طرز اختیار ہے۔ فرمایا: حٰم، یہ کتاب اس اللہ کی جانب سے نازل کردہ ہے جو غالب حکمت والا ہے۔ آسمانوں اور زمین میں ایمان والوں کے لیے دلائل ہیں۔
Read more ...

سورۃ الدخان

User Rating: 2 / 5

Star ActiveStar ActiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
سورۃ الدخان
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿حٰمٓ ۚ﴿ۛ۱﴾ وَ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ ۙ﴿ۛ۲﴾ اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنۡذِرِیۡنَ ﴿۳﴾﴾
یہ تو آپ کے علم میں ہے کہ اکثر سورتوں کے جو نام ہیں تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس سورت میں کوئی خاص واقعہ ہوتا ہے اور اس واقعہ کی وجہ سے اس سورت کا نام ہوتا ہے۔ اسے کہتے ہیں
”تَسْمِیَۃُ الْکُلِّ بِاسْمِ الْجُزْءِ“
اس سورت میں بھی چونکہ ”دخان“ یعنی دھوئیں کا ذکر ہے اس لیے اسے سورت دخان کہتے ہیں۔
حٰم پر پہلے بات ہو چکی ہے کہ یہ سات سورتیں وہ ہیں جو حٰم سے شروع ہوتی ہیں، جنہیں حوامیم کہتے ہیں۔ فرمایا: قسم ہے اس کتاب کی جو بڑی واضح ہے، قرآن کریم کو ہم نے برکت والی رات میں نازل فرمایا ہے کیونکہ ہم لوگوں کو ڈرانے والے ہیں۔
نزولِ قرآن دو مرتبہ ہوا ہے:
یہ بات سمجھیں کہ یہاں ناز ل ہونے سے مراد کیاہے؟ کیونکہ قرآن کریم کا نزول دو مرتبہ ہوا ہے:
• ایک مرتبہ لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر ہوا ہے۔
• اور ایک مرتبہ آسمان دنیاسے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر ہوا ہے
﴿فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلۡبِکَ“﴾۔
البقرۃ 2: 97
لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر جو قرآن کریم نازل ہوا ہے وہ صرف لیلۃ القدر کی ایک رات میں ہوا ہے جس کا ذکر
﴿اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الۡقَدۡرِ﴾
القدر 97: 1
میں ہے۔ پھر آسمانِ دنیا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ اطہر پر تھوڑا تھوڑا کر کے تئیس سال کے عرصے میں نازل ہوا ہے۔
اس لیے عام طور پر جب لفظ
”اَنْزَلْنَا“
ہو تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اور جب لفظ
”نَزَّلْنَا“
ہو تو اس کا معنی ہوتا ہے کہ آسمان دنیا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ اطہر پر کیونکہ
اَنْزَلَ یُنْزِلُ اِنْزَالًا
باب افعال کا استعمال وہاں ہوتا ہے جہاں نزول دفعۃً واحدۃً ہو یعنی ایک ہی دفعہ ہو اور
نَزَّلَ یُنَزِّلُ تَنْزِیْلًا
باب تفعیل کا استعمال وہاں ہوتا ہے جہاں نزول تدریجاً ہو یعنی تھوڑا تھوڑا ہو۔ تو لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نزول ایک دفعہ ہے اس لیے لفظ
”اَنْزَلْنَا“
ہے اور آسمان دنیا سے قلب اطہر پر چونکہ تئیس سال میں نازل ہوا ہے اس لیے وہاں
”نَزَّلْنَا“
ہے۔
باقی جو کتب سماویہ ہیں تورات، زبور، انجیل اور صحیفے ان کے لیےعموماً لفظ
”اَنْزَلْنَا“
استعمال ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کتابیں ایک ہی مرتبہ نازل ہوئی ہیں۔
قرآن ہی محفوظ کتاب ہے:
سورۃ الحجر میں ہے
”اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ﴿۹﴾“
ہم کہتے ہیں کہ اللہ رب العز ت نے قرآن کریم کی حفاظت اپنے ذمہ لی ہے۔ اس کی دلیل یہی آیت ہے۔
اس پر اعتراض ہے کہ یہاں
پر ”الْقُرْاٰنَ“
نہیں ہے بلکہ
”الذِّكْرَ“
ہے اور جس طرح ”الذِّكْرَ“قرآن کو کہتے ہیں اسی طرح تورات، زبور، انجیل کوبھی کہتے ہیں۔
اس کا جواب ہم یہی دیتے ہیں کہ تورات، زبور اور انجیل کو ایک دفعہ اکٹھا نازل کیا گیا اور قرآن کو تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا گیا اور جس کتاب کو تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا گیا ہو وہاں
”نَزَّلْنَا“
آتا ہے اور جس کو ایک ہی بار نازل کیا ہو وہاں
”اَنْزَلْنَا“
آتا ہے اور یہاں پر
” اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ “
میں
”نَزَّلۡنَا“
ہے۔ تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ الذکر سے مراد عام ذکر نہیں ہے بلکہ خاص ذکر ہے جو کہ قرآن کریم ہے۔
اس پر پھر یہ سوال ہے کہ
”اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الۡقَدۡرِ“
میں تو قرآن کریم کے نزول کے لیے لفظ
”اَنْزَلْنَا“
آیا ہے،
”نَزَّلْنَا“
تو نہیں آیا۔
اس کا ہم جواب یہ دیتے ہیں کہ قرآن کریم کا نزول دو مرتبہ ہے۔ ایک مرتبہ لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر نزول ہوا جس کا ذکر
”اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الۡقَدۡرِ“
میں ہے اور ایک ہے آسمانِ دنیا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر
”فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلۡبِکَ“
اور یہاں پر لفظ
”نَزَّلْنَا“
ہے۔ تو چونکہ نزول دو مرتبہ ہے اس لیے لفظ بھی دو قسم کا آیا ہے۔
کثرت اور برکت میں فرق:
یہاں فرمایا لیلۃ مبارکۃ کہ یہ رات برکت والی ہے۔
میں کئی بار یہ بات سمجھا چکا ہوں کہ ایک ہے لفظ کثرت، ایک ہے لفظ برکت، چیز تھوڑی ہو اور فائدہ زیادہ ہو یہ برکت ہےاور چیز زیادہ ہو لیکن فائدہ کم ہو تو یہ کثرت ہے۔ یہاں قرآن کریم میں لیلۃ مبارکۃ فرمایا کہ یہ رات ایسی ہے جو کمیت اور مقدار میں عام راتوں کی طرح ہے لیکن کیفیت اور معیار میں عام راتوں سے بڑھ کر ہے کہ یہ رات برکت والی ہے۔
استقبالِ رمضان (حدیث سلیمان فارسی)
اس پر میں ایک حدیث مبارک آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں فضائل رمضان سے، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اٰخِرَ يَوْمٍ مِنْ شَعْبَانَ فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ أَظَلَّكُمْ شَهْرٌ عَظِيْمٌ شَهْرٌ مُبَارَكٌ․․․
یہ جو لمبی حدیث ہے امام ابن خزیمہ نے اپنی کتاب صحیح ابن خزیمہ
صحیح ابن خزیمہ: ج2 ص911 باب فضائل شھر رمضان
میں اس کو نقل کیا ہے اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ نے ”فضائل اعمال“ میں جو ان کا رسالہ ہے فضائل رمضان اس کے شروع میں پہلی حدیث یہی لائے ہیں۔ عام طور پر اس حدیث کی جو شرح بیان کی جاتی ہے وہ آپ نے پڑھی ہے یا سنی ہے لیکن اس حدیث مبارک کی شرح جو میں کرتا ہوں ذرا وہ سنیں! میں کہتا ہوں کہ اس حدیث مبارک میں دو چیزیں ہیں؛ ایک ہے اجمال اور ایک ہے تفصیل۔
”يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ أَظَلَّكُمْ شَهْرٌ عَظِيْمٌ شَهْرٌ مُبَارَكٌ “
یہ گویا اجمال اور متن ہے اور آگے اس کی تفصیل اور شرح ہے۔ اس کو آپ اچھی طرح سمجھ لیں۔ یہاں لفظ
”اَظَلَّ“
فرمایا، لفظ
”اَتٰی“
یا
”جَاءَ“
نہیں فرمایا اس کی وجہ یہ ہے کہ
”اَتٰی“
اور
”جَاءَ“
کا معنی ہے آنا اور
”اَظَلَّ“
کا معنی ہے چھا جانا۔ جیسے بعض آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اور بعض آتے ہیں اور چھا جاتے ہیں۔
تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ سلم نے لفظ فرمایا
”قَدْ أَظَلَّكُمْ“
دیکھو! لفظ کتنا پیارا استعمال کیا، رمضان آتا ہے اور چھا جاتا ہے اور پوری دنیا میں رمضان آتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ رمضان آیا ہے، اس کے علاوہ کوئی ایسا مہینا نہیں ہے کہ جو اس طرح چھا جائے جیسے رمضان چھا جاتا ہے۔۔
آپ کے ذہن میں آئے گا ربیع الاول،ربیع الاول آتا ہے لیکن اس کے چند دن ہوتے ہیں، پورامہینا ربیع الاول میں بہاریں نظر نہیں آتیں، رمضان میں پورا مہینا بلکہ جب رمضان ختم ہو رہا ہوتا ہے تو بہاریں اور بھی بڑھ جاتی ہیں۔
آپ کہیں گے محرم، محرم بھی دیکھ لیں تو محرم میں بازار سجتے ہیں لیکن مساجد کی آبادی محرم میں نہیں بڑھتی، ربیع الاول میں مساجد کی آبادی نہیں بڑھتی، رمضان ایسا ہے کہ جس میں مساجد کی آبادی بڑھ جاتی ہے اور شروع سے لے کر آخر تک، آخر میں اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
اس لیے فرمایا کہ رمضان مبارک صرف آ گیا نہیں بلکہ چھا گیا ہے۔ اب دیکھو
”اَظَلَّ“
رمضان آیا نہیں ہے ابھی آنا ہے تو پھر یوں فرمانا چاہیے تھا
”یُظِلُّ“
پھر
”اَظَلَّ“
کیوں فرمایا؟ اصل میں لفظ ماضی تحقق کے لیے ہوتا ہے یعنی جس چیز نے مستقبل میں یقیناً ہونا ہو اس کو لفظ ماضی سے تعبیر کر دیتے ہیں۔ جس طرح قرآن کریم سورۃ شمس میں ہے:
﴿قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰىہَا ۪ۙ﴿۹﴾﴾
اب یہاں
”قَدْ یُفْلِحُ“
ہونا چاہیے تھا لیکن فرمایا ”
قَدۡ اَفۡلَحَ“
اس لیے کہ تزکیہ کے بعد فلاح اتنی یقینی ہے کہ اس کو ماضی کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔
”شَهْرٌ عَظِيمٌ“
صرف عظمت نہیں بتائی بلکہ فرمایا:
”شَهْرٌ مُبَارَكٌ“
کہ یہ برکت والا بھی ہے۔ برکت کامعنی ہوتا ہے کہ چیز تھوڑی ہو اور فائدہ زیادہ ہو۔ یہ متن ہے۔ آگے ساری حدیث اس کی شرح ہے:
”فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ“
اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ باقی مہینوں میں ایسی رات نہیں ہے، یہ صرف رمضان ہی میں ہے۔
”جَعَلَ اللهُ صِيَامَهُ فَرِيْضَةً وَ قِيَامَ لَيْلِهِ تَطَوُّعًا“
یہ مہینا ایسا ہے کہ جس میں اللہ نے روزے کو فرض فرمایا اور اس کی رات کو نفل۔ باقی پورے سال میں کوئی ایسا مہینا نہیں ہے کہ جس میں پورے دن روزہ فرض ہو اور رات تراویح کی طرح نماز ضروری ہو، ایسا کوئی مہینا نہیں ہے۔
” مَنْ تَقَرَّبَ فِيهِ بِخَصْلَةٍ مِنَ الْخَيْرِ كَانَ كَمَنْ أَدّٰى فَرِيْضَةً فِیْمَا سِوَاهُ وَمَنْ أَدّٰى فِيْهِ فَرِيْضَةً كَانَ كَمَنْ أَدّٰى سَبْعِيْنَ فَرِيْضَةً فِیْمَا سِوَاهُ“
اگر کوئی شخص اس مہینے میں نیک عمل کر کے اللہ کا تقرب حاصل کرے تو وہ ایسا ہے جیسے اس نے غیر رمضان میں فرض کو ادا کیا ہو اور جس نے اس میں ایک فرض ادا کیا ہو تو ایسے ہے جس طرح اس نے ستر فرضوں کو غیر رمضان میں ادا کیا ہو۔
نفل کا فرض کے برابر ہونا اور فرض کا ستر فرائض کے برابر ہونا․․․ اب فرض کا ستر فرائض کے برابر ہونا یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ برکت ہے اور نفل کا فرض کے برابر ہونا یہ سمجھ نہیں آتا،یہ سمجھ تب آئے گا کہ پہلے یہ پتا چلے کہ فرض اور نفل میں فرق کیا ہے؟
اگر کوئی شخص ایک فرض ادا نہ کرے اور اس کے بدلے میں پوری زندگی نوافل پڑھتا رہے تو اس فرض کا تدارک نہیں ہو سکتا۔ اس کا معنی یہ ہے کہ ایک فرض ہزاروں نوافل سے افضل ہے اور اس مہینا کا نفل فرض کے برابر ہو گا، تو اب سمجھ آئے گی کہ اس میں برکت کتنی ہے!
”وَشَهْرٌ يُزَادُ فِيْہِ رِزْقُ الْمُؤْمِنِ“
اس مہینے میں مؤمن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔
تو میں آپ کو لفظ برکت سمجھا رہا تھا، کبھی آپ رمضان کے آغاز پر تقریر کریں اور حدیث یہی پڑھیں لیکن سمجھائیں ایسے جیسے میں آپ کو سمجھا رہا ہوں تو پھر بیان کرنے کا بھی لطف آتا ہے اور سننے کا بھی۔
حدیث استقبال رمضان؛ بیس رکعات تراویح کی دلیل:
میں اسی حدیث کو بیس تراویح پر بطورِ دلیل کے پیش کرتا ہوں۔ پتا نہیں آپ نے کبھی سنا ہے یا نہیں، اور بیس رکعات تراویح پر یہ ایسی دلیل ہے جو میں نے کہیں نہیں پڑھی لیکن آپ عوام کو سمجھائیں تو یہ فوراً دماغ میں اترتی ہے۔ آپ یہ سمجھیں کہ بیس رکعات تراویح پر یہ دلیل کیسے بنتی ہے؟
• پہلی بات یہ سمجھیں کہ حدیث پاک میں ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے فرائض کا حساب ہو گا، اگر فرائض میں کمی رہ جائے تو نوافل دیکھیں گے اور نفلوں سے فرضوں کی کمی کو پورا فرما دیں گے۔ یہ حدیث ذہن میں آ گئی؟ (جی ہاں۔ سامعین)
• دوسری بات یہ سمجھیں کہ ہم جو روزانہ فرض پڑھتے ہیں ان کی تعداد بیس بنتی ہے ؛ فجر کے دو فرض، ظہر کے چار فرض، عصر کے چھ فرض، مغرب کے تین فرض، عشاء کے چار فرض اور تین رکعت وتر۔ یہ کل بیس رکعات ہو گئیں۔ اس پر پہلے لوگوں کو سمجھائیں کہ بھائی جو ہم روزانہ فرائض پڑھتے ہیں ان کی تعداد بیس ہے۔ پھر اس پر خود سوال اٹھائیں کہ آپ کے ذہن میں آئے گا کہ وتر تو واجب ہیں، فرض نہیں ہیں تو پھر فرض بیس کیسے بنے؟ پھر اس کا جواب سمجھائیں کہ اگر ایک شخص کی ایک دن کی پانچ نمازیں قضا ہو جائیں تو جب دوسرے دن قضا پڑھے گا تو وتر پڑھے گا یا نہیں؟ پڑھےگا، اس کا معنی ہے کہ وتر؛ فرض کی طرح ہیں۔ آدمی سفر میں جائے تو سنتیں معاف ہو جاتی ہیں لیکن فرائض معاف نہیں ہوتے۔ کیا وتر بھی معاف ہوتے ہیں؟ نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ وتر فرض کی طرح ہیں۔ اگر کوئی شخص فوت ہو جائے اور اس کی نمازیں رہ جائیں، آپ اس کا فدیہ ادا کریں تو روزانہ کے حساب سے جو فدیہ ادا کریں گے وہ پانچ نمازوں کا کریں گے یا چھ کا؟ چھ کا، تو وتر کا مستقل فدیہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ فرض کی طرح ہے۔
اب پھر سوال اٹھائیں کہ دیکھو! ان دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ وتر فرض ہیں جبکہ علماء تو لکھتے ہیں کہ وتر واجب ہیں۔ پھر آپ بات سمجھائیں کہ جو ہم کہتے ہیں وہ بھی ٹھیک ہے اور جو علماء کہتے ہیں وہ بھی ٹھیک ہے، کیونکہ وتر کی دوحیثیتیں ہیں: ایک ہے اعتقادی اور ایک ہے عملی۔ اعتقاداً وتر واجب ہیں اور عملاً فرض ہیں۔ ہم جو کہتے ہیں کہ وتر فرض ہیں تو وہ اعتقاداً نہیں بلکہ عملاً فرض ہیں۔ واجب وہ ہوتا ہے کہ جس کا انکار کفر نہیں ہوتا لیکن اس کا ترک فسق ہوتا ہے فرض کی طرح۔
• تیسری بات اس حدیث کو دیکھیں کہ رمضان میں جو شخص ایک نفل پڑھے تو وہ فرض کے برابر ہے۔
تو اب ان تین باتوں کو آپ جمع کر لیں :
نمبر1 ․․․ روزانہ جو ہم فرائض پڑھتے ہیں ان کی تعداد بیس ہے۔
نمبر2 ․․․ قیامت کے دن فرائض کی کمی پوری ہوگی نوافل سے۔
نمبر3 ․․․ رمضان کانفل ثواب میں فرض کے برابر ہے۔
تو روزانہ جو ہم فرائض پڑھتے ہیں ان کی رکعات بیس ہیں۔ اب نوافل سے فرائض کی کمی پوری ہو گی اور ایسا نفل جس سے فرائض کی کمی جلدی پوری ہو وہ نفل ایسا ہونا چاہیے جو فرض کے برابر ہو۔ اب ایسا نفل جو فرض کے برابر ہو وہ رمضان میں ہوتاہے غیر رمضان میں نہیں ہوتا۔ اس کا معنی یہ ہے کہ روزانہ کے فرائض میں ہونے والی کمی نوافل سے پوری ہو گی اور بطورِ خاص رمضان کے نوافل سے جو فرض کے برابر ہیں۔ تو جو لوگ روزانہ آٹھ فرائض پڑھتے ہیں تو وہ رمضان میں اضافی نوافل بھی آٹھ پڑھیں اور ہم چونکہ روزانہ بیس رکعات فرائض پڑھتے ہیں تو رمضان میں اضافی نوافل بھی بیس پڑھتے ہیں۔
اب دیکھو! عوام کو بات سمجھ آ رہی ہے کہ نہیں؟ (آ رہی ہے۔ سامعین) اس لیے میں پھر کہتا ہوں کہ ہماری بیس رکعات عقل کے بھی موافق ہیں اور نقل کے بھی موافق ہیں۔ نقل یعنی حدیث کے موافق۔ نصوص کا تقاضا بھی ہے کہ بیس ہونی چاہییں اور عقل کا تقاضا بھی ہے کہ بیس ہونی چاہییں۔تو جو آٹھ کے قائل ہیں وہ نقل کے بھی دشمن ہیں اور عقل کے بھی دشمن ہیں۔
اس لیے ہم کہتے ہیں کہ آپ پوری دنیا میں دیکھ لیں ․․․ وہ ہیں ہی ایسے کہ ان میں عقل نہیں ہے، پھر عقل نہ ہونے پر عوام کو دو چار لطیفے سنا دیں تو خود ہی بات سمجھ میں آ جاتی ہے۔
مجھ سے ایک بندہ پوچھتا ہے کہ غیر مقلد اپنے سر پر ٹوپی کیوں نہیں رکھتا؟ میں نے کہا کہ ٹوپی یا پگڑی سر پر وہی رکھتا ہے کہ جس کے پاس عقل ہو اور وہ ٹوپی پہن کر اس کی حفاظت کرتا ہے،جب عقل ہی نہ ہو تو پھر ٹوپی کی کیا ضرورت ہے؟ جب آدمی کے پاس پیسے ہوں تو جیب میں بٹوا بھی رکھے گا، جب پیسے نہ ہوں تو وہ بٹوے کو کیا کرے گا؟! عقل اور دماغ نہ ہو تو ٹوپی اور پگڑی کو کیا کرنا ہے؟ جب عقل ہے ہی نہیں تو اس کو سنبھالنا کیا ہے؟ اس لیے ان کو ٹوپی اور پگڑی کے بغیر رہنا چاہیے، یہ ٹوپی اور پگڑی پہنیں گے تو ٹھیک نہیں ہو گا۔یہاں پر آپ ایک آدھ لطیفہ سنا دیں تو لوگ ہنستے ہنستے آپ کے دلائل سنیں گے۔
میں نے تو بہت مختصر وقت میں بیان کیا ہے۔ آپ اس کو تھوڑا سا کھولیں گے تو آدھا پونا گھنٹا لگے گا اور بیس رکعات تراویح پر بہترین دلائل آپ کے سامنے آ جائیں گے۔
لیلہ مبارکہ سے مراد کیا ہے؟
﴿اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنۡذِرِیۡنَ ﴿۳﴾﴾
قرآن کریم کو ہم نے برکت والی رات میں نازل فرمایا ہے کیونکہ ہم لوگوں کو ڈرانے والے ہیں۔
لیلہ مبارکہ؛ برکت والی رات سے مراد لیلۃ القدر ہے۔ کیو نکہ دوسری جگہ صراحت کے ساتھ قرآن کا لیلۃ القدر میں نازل ہونا منقول ہے:
﴿اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الۡقَدۡرِ﴾
تو اس سے لیلہ مبارکہ کی تعین ہو رہی ہے۔
”دخان“ سے کیا مراد ہے؟
﴿فَارۡتَقِبۡ یَوۡمَ تَاۡتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِیۡنٍ ﴿ۙ۱۰﴾﴾
اے پیغمبر! اس دن کا انتظار کریں جس دن آسمان سے ایک کھلا دھواں آئے گا۔
دخان مبین سے کیا مراد ہے؟ اس بارے میں پہلا قول یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تھے۔ آپ نے قریش کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بد دعا کی تو مکہ پر سخت قحط پڑا اور قحط اتنا شدید تھا کہ لوگ ہڈیاں اور مردار کھانے پر مجبور ہو گئے۔ لوگ آسمان کی طرف دیکھتے تو بھوک کی وجہ سے انہیں دھواں نظر آتا تھا۔ یہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ اگر آپ دعا کریں اور قحط ختم ہو جائے تو ہم آپ پر ایمان لائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی تو قحط ختم ہو گیا لیکن وہ ایمان پھر بھی نہیں لائے۔
اب اس قحط کو ”دخان“ یعنی دھوئیں سے تعبیر کیوں کیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آدمی کو سخت بھوک اور پیاس لگی ہو تو آنکھیں دھندلا جاتی ہیں، اسے ہر طرف دھواں نظر آتا ہے۔ اس لیے اس کو دخان سے تعبیر کیا۔
دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد ایک خاص نشانی ہے کہ قربِ قیامت میں دھواں نمودار ہو گا جولوگوں کو ڈھانپ لے گا۔
دخان مبین کے دونوں معنی ٹھیک ہیں، ان میں کوئی منافات نہیں۔ مکہ مکرمہ میں جو قحط آیا تھا وہ مراد لیں تو بھی ٹھیک ہے اور جو قربِ قیامت میں دھواں نمودار ہو گا وہ بھی ٹھیک ہے۔
﴿یَوۡمَ نَبۡطِشُ الۡبَطۡشَۃَ الۡکُبۡرٰی ۚ اِنَّا مُنۡتَقِمُوۡنَ ﴿۱۶﴾﴾
اور جس دن جب ہم ان کو سخت گرفت میں لیں گے تو ان سے انتقام لیں گے۔
اس سے مراد بدر کے دن کا عذاب ہے جب بدر میں کفار گرفت میں آئے تھے۔ اس کا ایک معنی یہ بھی ہے اور ایک معنی یہ ہے کہ اس سے مراد قیامت کا دن ہے۔ دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہیں۔
فرعون کی پکڑ:
﴿وَ لَقَدۡ فَتَنَّا قَبۡلَہُمۡ قَوۡمَ فِرۡعَوۡنَ وَ جَآءَہُمۡ رَسُوۡلٌ کَرِیۡمٌ ﴿ۙ۱۷﴾ اَنۡ اَدُّوۡۤا اِلَیَّ عِبَادَ اللہِ ؕ اِنِّیۡ لَکُمۡ رَسُوۡلٌ اَمِیۡنٌ ﴿ۙ۱۸﴾ وَّ اَنۡ لَّا تَعۡلُوۡا عَلَی اللہِ ۚ اِنِّیۡۤ اٰتِیۡکُمۡ بِسُلۡطٰنٍ مُّبِیۡنٍ ﴿ۚ۱۹﴾﴾
اور ہم نے اس سے پہلے فرعون کی قوم کو آزمایا تھا، ان کے پاس ہمارے ایک معزز رسول آئے تھے، یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام، انہوں نے فرعون سے کہا کہ بنی اسرائیل کو میرے حوالے کر دو، میں امانت دار نبی ہوں۔ یعنی میں خیانت کی بات نہیں کروں گا۔ یہ حکم تو دیا اور ایک حکم یہ بھی دیا کہ اللہ کے سامنے سرکشی مت دکھاؤ، میں تمہارے پاس واضح دلیل لے کر آیا ہوں۔
اللہ رب العزت نے یہاں فرعونیوں کے بارے میں بتایا کہ دیکھو! یہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں آئے ہیں تو تباہ وبرباد ہو گئے۔ اللہ نے انہیں کتنی نعمتیں دی تھیں!
﴿ کَمۡ تَرَکُوۡا مِنۡ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوۡنٍ ﴿ۙ۲۵﴾ وَّ زُرُوۡعٍ وَّ مَقَامٍ کَرِیۡمٍ ﴿ۙ۲۶﴾ وَّ نَعۡمَۃٍ کَانُوۡا فِیۡہَا فٰکِہِیۡنَ ﴿ۙ۲۷﴾ کَذٰلِکَ ۟ وَ اَوۡرَثۡنٰہَا قَوۡمًا اٰخَرِیۡنَ ﴿۲۸﴾﴾
ان لوگوں نے کتنے باغات اور چشمے چھوڑے، کئی کھیت چھوڑے اور کئی رہنے کی اچھی اچھی جگہیں چھوڑیں، عیش و عشرت کی جس زندگی میں وہ جی رہے تھے انہوں نے وہ بھی چھوڑی۔ ان سب چیزوں کا وارث ہم نے ایک اور قوم کو بنا دیا۔
نہ آسمان رویا نہ زمین روئی کا مطلب:
﴿فَمَا بَکَتۡ عَلَیۡہِمُ السَّمَآءُ وَ الۡاَرۡضُ وَ مَا کَانُوۡا مُنۡظَرِیۡنَ ﴿٪۲۹﴾﴾
قرآن کریم اکثر محاورات استعمال کرتا ہے۔ یہ ایک محاورہ ہے کہ ان پر نہ آسمان رویا اور نہ زمین روئی اور نہ ان کو کوئی مہلت دی گئی۔
اس کا معنی یہ تھا کہ ان کے جانے سے کچھ فرق نہیں پڑا۔ یہ محاورہ ہے کہ فلاں کے جانے پر آسمان بھی رو رہا تھا یعنی اس کے جانے سے فرق پڑا ہے، لیکن یہ فرعونی تو خس وخاشاک کی طرح تھے، ان کے جانے سے کچھ بھی نہیں ہوا۔ واقعتاً ایسا ہے کہ مسلمان کا نیک عمل اوپر جاتا ہے، تو جب نیک عمل اوپر جانا بند ہو تو آسمان روتا ہے، جس جگہ انسان نیک عمل کرتا ہے تو جب وہاں عبادت بند ہو جائے تو پھر زمین روتی ہے۔ ان فرعونیوں کے جانے پر نہ آسمان رویا نہ زمین روئی، کیونکہ ان کے نہ نیک اعمال زمین پر تھے کہ ان کے مرنے پر زمین روتی، نہ ان کے نیک اعمال آسمان پر جاتے تھے کہ ان کے مرنے پر آسمان روتا۔اللہ ہم سب کو ایسی زندگی عطا فرمائیں کہ آدمی کے جانے پر آسمان بھی روئے اور زمین بھی روئے۔
جب انسان دنیا میں آتا ہے تو روتا ہے اور دوسرے اس کی آمد پر ہنس رہے ہوتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں اور جب انسان دنیا سے جائے تو یہ ہنسے اور دوسرے روئیں۔ یہ ہے زندگی! اگر خدانخواستہ ایسا ہو کہ جب آیا تب بھی رو رہا تھا اور جب گیا تب بھی رو رہا تھا تو یہ بڑی نا کامی کی زندگی ہے۔ آنے پر یہ روئے اور جانے پر ہنسے تو یہ کامیابی کی زندگی ہے۔ اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ کسی کو جاتے ہوئے روتا ہوا دیکھ لیں تو کہیں کہ یہ تو غلط تھا! ایسا نہیں ہے بلکہ یہ جو رو رہا ہے تو یہ اللہ کے خوف کی وجہ سے رو رہا ہے کہ پتا نہیں میرے ساتھ کیا ہو گا؟! لیکن مؤمن کے لیے موت تحفہ ہے، مومن جیسا کیسا بھی ہو گا بہرحال وہ موت سے کسی درجے میں محبت ضرور کرے گا، وہ سمجھتا ہے کہ میں نے مرنا ہے تو مجھے نعمتیں ملنی ہیں، جتنا بھی کمزور مؤمن ہو گا اس کو بہرحال موت سے ایک گونہ محبت ضرور ہوتی ہے، اس کو موت سے بالکل نفرت ہو ایسا نہیں ہوتا۔
﴿وَ اٰتَیۡنٰہُمۡ مِّنَ الۡاٰیٰتِ مَا فِیۡہِ بَلٰٓـؤٌا مُّبِیۡنٌ ﴿۳۳﴾ اِنَّ ہٰۤؤُلَآءِ لَیَقُوۡلُوۡنَ﴿ۙ۳۴﴾ اِنۡ ہِیَ اِلَّا مَوۡتَتُنَا الۡاُوۡلٰی وَ مَا نَحۡنُ بِمُنۡشَرِیۡنَ ﴿۳۵﴾ فَاۡتُوۡا بِاٰبَآئِنَاۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۳۶﴾﴾
اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ ہم نے فرعونیوں کو ایسی نشانیاں دیں جن میں ان کے لیے واضح انعام تھا، یہ پھر بھی بات نہیں مانتے تھے،کہتے تھے کہ بس ہم نے ایک ہی بار مرنا ہے، اس کے بعد دوبارہ ہم تھوڑا ہی اٹھیں گے۔ یہ لوگ پیغمبر سے کہتے: اگر تم سچے ہو کہ دوبارہ اٹھنا ہے تو ہمارے باپ دادا جو مر گئے ہیں ان کو اٹھاؤ!
تبع اور اس کی قوم کا تذکرہ:
﴿اَہُمۡ خَیۡرٌ اَمۡ قَوۡمُ تُبَّعٍ ۙ وَّ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ؕ اَہۡلَکۡنٰہُمۡ ۫ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا مُجۡرِمِیۡنَ ﴿۳۷﴾﴾
اللہ فرماتے ہیں ان سے پوچھو کہ کیا اسباب اور طاقت میں تم بڑھ کر ہو یا قومِ تبع تم سے بڑھ کر تھی؟!
”تبع“شاہِ یمن کو کہتے ہیں۔ جس طرح شاہِ مصر کو فرعون کہتے ہیں،شاہِ روم کو قیصر کہتے ہیں، شاہِ ایران کو کسریٰ کہتے ہیں، شاہِ حبشہ کو نجاشی کہتے ہیں اسی طرح شاہِ یمن کو تبع کہتے ہیں۔ تبع ان کے بادشاہوں کا لقب تھا۔ تو ان بادشاہوں کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ تمہارے پاس طاقت اور قوت زیادہ ہے یا تبع کے پاس زیادہ تھی؟
تُبَّع کا واقعہ:
یہاں ”تبع“ سے مرادخاص تبع بادشاہ ہے یا مطلق شاہِ یمن مراد ہے؟ جس طرح فرعون؛ شاہِ مصر کو کہتے ہیں لیکن جب ہم فرعون کہتے ہیں تو اس سے خاص فرعون مراد ہوتا ہے عام نہیں، اس طرح ہم کسریٰ کہتے ہیں تو عام کسریٰ مراد نہیں ہوتا بلکہ وہ مراد ہوتا ہے جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خط لکھا تھا اور اس بدبخت نے خط پھاڑ دیا تھا العیاذ باللہ، جب ہم نجاشی کہتے ہیں تو ہماری مراد وہ خاص نجاشی ہے جس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت ؛ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا احترام کیا تھا۔
شاہِ حبشہ؛ حضرت نجاشی
یقین کریں بندہ جب ایسے خوش بخت لوگوں کو دیکھتا ہے تو برداشت نہیں کر سکتا، بس خوشی سے رونا آ جاتا ہے۔ دیکھیں! کتنی بڑی سعادت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت ان کے پاس گئی ہے تو انہوں نے ان کا اکرام کیا ہے، اس اکرام کا صلہ اللہ نے ایمان کی دولت کی صورت میں دیا۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا قریش کی خاتون ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہجرت کی دوسرے ملک حبشہ میں اور شوہر نے ساتھ چھوڑ دیا، اب یہ کتنا بڑا دکھ ہے تو اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغامِ نکاح بھیج دیا، اب بتاؤ ان کی خوشی کا کیا عالم ہو گا کہ جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم جیسا شوہر مل جائے اور نجاشی نے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا نکاح پڑھایا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حق مہر خود ادا کیا، پھر ساتھ ہدیہ دے کر روانہ کیا ہے۔
یہ تب ہے جب عظمت ذہن میں ہو، یہ باتیں پھر سمجھ میں آتی ہیں کہ کتنی بڑی سعادت ہے ! اور پھر جب نجاشی فوت ہوا تو جنازہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہیں تھے تو نکاح نجاشی نے پڑھا اور جب نجاشی کی باری آئی تو جنازہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا۔ادلا بدلا ہو گیا۔ اس نے خوشی دی ہے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بدلے میں خوشی عطا فرمائی ہے۔
تُبَّع بادشاہ کی مدینہ منورہ میں آمد:
﴿اَہُمۡ خَیۡرٌ اَمۡ قَوۡمُ تُبَّعٍ﴾․․․
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قباء میں قیام فرمایا۔ پھر قباء سے روانہ ہوئے تو مدینہ شہر میں گئے . حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں انصارِ مدینہ میں سے ہر ایک کی خواہش تھی کہ اللہ کے نبی ہمارے مہمان بنیں، ہر ایک کا جی چاہتا کہ آپ کی اونٹنی کی مہار کو پکڑ لیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”دَعُوهَا فَإِنَّهَا مَأْمُورَةٌ“
میری اونٹنی کو چھوڑ دویہ اللہ کے حکم سے چلی ہے، اللہ کے حکم سے رکے گی۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبد المطلب کے سسرال بنی نجار کا قبیلہ مدینہ میں تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طبعی خواہش یہ تھی کہ میں اپنے دادا کے سسرال کے ہاں ٹھہروں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں نہیں فرمایا؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ انصارِ مدینہ میں سے ہر ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرتا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات نہیں بتائی تاکہ کسی کا دل نہ ٹوٹ جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں چھوڑ کر وہاں کیوں گئے؟ تو اللہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کو کس طرح معجزے کے انداز میں پورا کیا کہ آپ کا معجزہ بھی ظاہر ہو گیا اور اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں مزید خوشی پیدا ہو گئی، یوں ایک کے پاس جانے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو طبعًا تکلیف نہیں ہوئی۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر کے سامنے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی رکی۔ اللہ آپ سب کو مدینہ منورہ لے جائے (آمین۔ سامعین) مسجد نبوی میں آپ جب داخل ہوں اور صلوٰۃ وسلام پڑھ کر باہر نکلیں تو مسجدنبوی کے موجودہ نقشہ میں جو دایاں کونہ ہے تقریبا ًیہی جگہ ہے جہاں پر حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا مکان تھا، اونٹنی وہاں رک گئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مکان میں ٹھہر گئے۔ دو منزلہ مکان تھا۔ مدینہ کے مکانات عام طور پر ایک منزلہ تھے اور یہ دو منزلہ تھا۔
تُبَّع کا حضور علیہ السلام کی خدمت میں ہدیہ:
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مکان بھی پیش کیا اور آپ کی خدمت میں ایک خط بھی پیش کیا۔ یہ خط اور یہ مکان کون سا تھا؟ اصل میں تبع یمن کا بادشاہ یہاں سے گزرا، اس کے ساتھ چار سو علماء تورات کے ماہر تھے۔ جب وہ واپس جانے لگا تو ان علماء نے کہا کہ آپ ہمیں اسی جگہ پر چھوڑ دیں۔ تبع نے پوچھا: کیوں؟ انہوں نے بتایاکہ ہماری کتاب میں لکھا ہے کہ آخری نبی جو آئے گا یہ زمین اس کی دار الہجرت ہو گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہاں بیٹھ کر ان کا انتظار کریں۔ یہ تبع بہت علم دوست آدمی تھا۔ تو اس نے چارسو علما کے لیے مکانات بنائے، ان سب کے وہاں نکاح کروائے، ان کو رہنے کے لیے سامان دیا اور ایک مکان دو منزلہ بنایا۔ اس نے کہا کہ جب وہ آخری نبی آئیں تو یہ مکان میری طرف سے ان کے لیے ہدیہ ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اسی مکان میں رہتے تھے۔ یہ جو دو منزلہ مکان تھا یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بنا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مکان میں آ گئے۔ پھر اس تبع بادشاہ نے کہا تھا کہ ایک خط میری طرف سے ہے، یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کر دینا۔ نسل در نسل حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس وہ خط چلا آ رہا تھا۔ انہوں نے وہ خط حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیا۔ اس خط میں تبع بادشاہ نے کہا تھا:
تبع کے اشعار:
شَهِدْتُ

عَلٰى أَحْمَدَ أنَّهٗ

رَسُوْلٌ مِنَ

اللهِ بَارِي النَّسَمْ

میں گواہی دیتاہو کہ احمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے برحق رسول ہیں۔
فَلَو

مُدَّ عُمْرِيْ إِلٰى عُمْرِهٖ

لَكُنْتُ

وَزِيْرًا لَهٗ وَابْنُ عَمْ

اگر مجھے خدانے موقع دیا اور میری عمر لمبی ہوئی اور میں نے ان کا زمانہ پا لیا تو میں ان کا سپاہی بنوں گااور ان کے چچا کا بیٹا بنوں گا۔ ”ابن عم“ اس وقت چچا کے بیٹے کو کہتے تھے کہ جو معاون بنے۔ تو یہ کہہ رہے تھے کہ میں ان کا معاون بنوں گا اور ان کا وزیر بن جاؤں گا۔
وَجَاهَدْتُ

بِالسَّيْفِ أعْدَاءَهٗ

وَفرَّجْتُ

عَنْ صَدْرِهٖ كُلَّ غَمْ

اور میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں سے تلوار سے ایسا ٹکراؤں گا کہ آپ کے دل کو ٹھنڈا کر دوں گا۔
تو حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے یہ مکان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا اور یہ والا خط بھی دیا۔
میں یہ باتیں اس لیے بار ہا کہتا ہوں کہ آپ لوگ اپنا ایک ذہن بنائیں، اب قیامت تک کوئی نیا نبی تو آنا نہیں، نبی تو پیدا ہونا نہیں، آپ نبی کے وارث ہیں اور کسی جگہ پر بندے کو صحیح وارث مل جائے تو اپنی زندگی کھپا دو، اپنا سب کچھ لٹا دو، پھر آپ اس کی بہاریں دیکھنا! یہ جو ہمارا ذہن ہوتا ہے نا کہ میں کروں، اس سے بہتر ہوتا ہے کہ انسان کرنے والے پر فدا ہو جائے، پھر ایک وقت آئے گا کہ آپ بھی کریں گے!
یہ جلد بازی انسان کو بہت خراب کرتی ہے۔میں اکثر ساتھیوں سے کہتا ہوں کہ آپ آئے اور چلے گئے، اس طرح کام نہیں ہوتا، آپ متخصصین ہیں، آپ میں سے ایسے بندے تیار ہو جائیں جو دس سال یہاں پڑے رہیں، اور میں کہتا ہوں کہ دس سال لگاؤ، اور کچھ بھی نہ کرو، صرف مطالعہ کرو اور ذکر کرو... مطالعہ کرو اور ذکر کرو... اور خدمت کرو، پھر اپنے علاقوں میں جا کر کام کرو، یہ کام صدیوں میں ختم نہیں ہو گا۔یہ جو دھیما دھیما کام ہوتا ہے تقویٰ کے ساتھ اس کی مدت بہت لمبی ہوتی ہے اور جو کام بغیر تقویٰ کے تیز رفتاری سے ہوتا ہے وہ جلدی ختم ہو جاتا ہے۔
جہنمیوں کا کھانا؛ زقوم
﴿اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوۡمِ ﴿ۙ۴۳﴾ طَعَامُ الۡاَثِیۡمِ ﴿ۖ۴۴﴾ کَالۡمُہۡلِ ۚۛ یَغۡلِیۡ فِی الۡبُطُوۡنِ ﴿ۙ۴۵﴾ کَغَلۡیِ الۡحَمِیۡمِ ﴿۴۶﴾ ﴾
یہاں پہلے اللہ تعالی نے اہلِ جہنم کا تذکرہ کیا۔فرمایا: زقوم کا درخت نافرمانوں کا کھانا ہو گا، اس کی شکل ہوگی تلچھٹ جیسی، جیسے تیل ہوتا ہے جو گاڑیوں میں استعمال ہو کر پھر پرانا ہو جاتا ہے، استعمال شدہ تیل۔ اس کو کھائیں گے تو آدمی کے پیٹ میں ہنڈیا کی طرح ابال شروع ہو جائے گا، یہ درخت شکل سے بھی بے کارہو گا اور ذائقہ کے اعتبار سے بھی ٹھیک نہیں ہو گا۔
﴿خُذُوۡہُ فَاعۡتِلُوۡہُ اِلٰی سَوَآءِ الۡجَحِیۡمِ ﴿٭ۖ۴۷﴾ ثُمَّ صُبُّوۡا فَوۡقَ رَاۡسِہٖ مِنۡ عَذَابِ الۡحَمِیۡمِ ﴿ؕ۴۸﴾ ذُقۡ ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡکَرِیۡمُ ﴿۴۹﴾ اِنَّ ہٰذَا مَا کُنۡتُمۡ بِہٖ تَمۡتَرُوۡنَ ﴿۵۰﴾ ﴾
اللہ تبارک وتعالیٰ فرمائیں گے کہ اس کو پکڑ کے جہنم کے درمیان میں لے جاؤ، پھر ان کے سروں پر کھولتےہوئے پانی کا عذاب ڈال دو، اس سے کہا جائے گا کہ چکھو اس کو ! تم خو د کو بڑا معزز سمجھتے تھے۔ اسی چیز میں تم شک کیا کرتے تھے۔
متقین کو ملنے والے انعامات:
﴿اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ مَقَامٍ اَمِیۡنٍ ﴿ۙ۵۱﴾ فِیۡ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوۡنٍ ﴿ۚۙ۵۲﴾ یَّلۡبَسُوۡنَ مِنۡ سُنۡدُسٍ وَّ اِسۡتَبۡرَقٍ مُّتَقٰبِلِیۡنَ ﴿ۚۙ۵۳﴾ کَذٰلِکَ ۟ وَ زَوَّجۡنٰہُمۡ بِحُوۡرٍ عِیۡنٍ ﴿ؕ۵۴﴾ ﴾
یہاں سے متقین کا ذکر فرما رہے ہیں۔ فرمایا: متقین ایسی جگہ پر ہوں گے جو امن والی ہو گی،باغات میں ہوں گے اور چشموں میں ہوں گے۔ باریک ریشم بھی پہنیں گے اور موٹی ریشم بھی پہنیں گے، آمنے سامنے بیٹھیں گے۔ خوب صورت آنکھوں والی حوروں سے ہم ان کی شادیاں کرائیں گے۔
﴿یَدۡعُوۡنَ فِیۡہَا بِکُلِّ فَاکِہَۃٍ اٰمِنِیۡنَ ﴿ۙ۵۵﴾ لَا یَذُوۡقُوۡنَ فِیۡہَا الۡمَوۡتَ اِلَّا الۡمَوۡتَۃَ الۡاُوۡلٰی ۚ وَ وَقٰہُمۡ عَذَابَ الۡجَحِیۡمِ ﴿ۙ۵۶﴾﴾
ہرقسم کے پھل منگوا کر کھائیں گے اور امن کے ساتھ رہیں گے۔ بس جو موت دنیا میں آنی تھی وہ آ گئی اب یہ ہمیشہ کے لیے زندہ ہوں گے،اللہ انہیں جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھیں گے۔
﴿فَضۡلًا مِّنۡ رَّبِّکَ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿۵۷﴾﴾
یہ اللہ کا خاص کرم ہے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔
واقعی یہ اللہ کا فضل ہے ورنہ ہمارے اعمال اس قابل نہیں ہیں کہ اس پر یہ نعمتیں ملیں، یہ خدا ہی کا احسان ہے۔
انسانی ضروریاتِ زندگی:
اب دیکھو درمیان میں جتنی باتیں ہیں یہ ساری آدمی کی ضرورتیں ہوتی ہیں:
[1]: مکان بندے کی ضرورت ہوتی ہے، اللہ فرماتے ہیں:
﴿اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ مَقَامٍ اَمِیۡنٍ﴾
کہ ہم ان کو گھر بھی دیں گے۔
[2]: آدمی کی ضرورت ہے لباس، فرمایا:
﴿یَّلۡبَسُوۡنَ مِنۡ سُنۡدُسٍ وَّ اِسۡتَبۡرَقٍ﴾
کہ لباس ہم ریشم کا دیں گے۔
[3]: آدمی کی ضرورت ہوتی ہے نکاح، فرمایا:
﴿وَ زَوَّجۡنٰہُمۡ بِحُوۡرٍ عِیۡنٍ﴾
ہم وہ بھی ان کو دیں گے۔
[4]: آدمی کی ضرورت ہوتی خوراک، فرمایا:
﴿بِکُلِّ فَاکِہَۃٍ﴾
کہ ہم یہ بھی دیں گے۔
رہائش، لباس، خوراک اور نکاح یہ بنیادی ضرورتیں ہیں اللہ یہ بھی دیں گے اور ان کے ساتھ مزید دو چیزیں اہم ہوتی ہیں:
[5]: کہ چیزیں ملیں اور امن کے ساتھ ملیں، فرمایا: ﴿اٰمِنِیۡنَ﴾ کہ امن کے ساتھ ملیں گی۔
[6]: چیزیں ملیں اور پھر آدمی سے نا چھوٹیں، فرمایا:
﴿لَا یَذُوۡقُوۡنَ فِیۡہَا الۡمَوۡتَ اِلَّا الۡمَوۡتَۃَ الۡاُوۡلٰی﴾
کہ ہم یہ بھی دیں گے۔
نعمتوں کا استحضار کیجیے!
اب دیکھیں! مکان بھی دیں گے، بیوی بھی دیں گے، لباس بھی دیں گے، کھانا پینا بھی دیں گے، امن بھی دیں گے اور ہمیشہ کے لیے دیں گے، کتنی بڑی نعمتیں ہیں۔ اللہ ہمیں اس کا استحضار عطا فرما دیں۔ بس تھوڑی سی مدت ہے اور یہ تھوڑی سی مدت عمل کی ہے۔ آپ یقین کریں کہ میں آپ کو اپنے دل کی بات نہیں سمجھا سکتا۔ میں تو اپنی بات کہتا ہوں -آپ تو بڑے ہیں آپ کی بات نہیں کرتا- سچی بات ہے میں تو کبھی رو پڑتا ہوں جب خلوت میں بات آتی ہے کہ اگر اللہ ہمیں کسی کافر کے گھر پیدا کرتے تو کیا ہوتا! بتاؤ ایمان میں ہمارا کیا دخل ہے؟ کس قدر خدا نے کرم کیا ہے کہ ایمان کی دولت دی ...کسی جاہل کے گھر پیدا کرتے اور جاہل بنا دیتے تو کیا ہوتا! خدا کا کتنا بڑا کرم ہے کہ اللہ نے علم کے لیے منتخب کیا ہے۔ ہم لوگ جیسے کیسے بھی ہیں علم ہی پڑھتے ہیں،قرآن وحدیث ہی پڑھتے ہیں، علومِ نبوت ہی پڑھتے ہیں، کہیں دائیں بائیں تو ہم نہیں جاتے... یہ خدا کا کتنا بڑا احسان ہے۔ اللہ ہمیں ان چیزوں کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرما دے۔
قرآن آسان ہے نصیحت کے لیے:
﴿فَاِنَّمَا یَسَّرۡنٰہُ بِلِسَانِکَ لَعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ ﴿۵۸﴾﴾
ہم نے قرآن کریم کو آپ کی زبان پر آسان کر دیا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔
اس آیت اور اس جیسی دیگر آیات کی وجہ سے بعض لوگ دھوکہ دیتے ہیں۔ دھوکہ کیا دیتے ہیں کہ قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ لَقَدۡ یَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ﴾
القمر54: 17
کہ ہم نے قرآن کو آسان بنا دیا ہے،
﴿فَاِنَّمَا یَسَّرۡنٰہُ بِلِسَانِکَ﴾
ہم نے قرآن کو آپ کی زبان پر آسان بنایا ہے... تو قرآن آسان ہے اور مولوی لوگ کہتے ہیں کہ قرآن بہت مشکل ہے، خود نہ پڑھنا، خود مطالعہ نہ کرنا بلکہ کسی عالم سے پڑھنا، دیکھو! قرآن کہتا ہے کہ بہت آسان ہے اور مولوی صاحب کہتے ہیں کہ بہت مشکل ہے۔
اس کا ایک جواب تو یہ سمجھیں کہ قرآن کریم جو کہتا ہے وہ بھی ٹھیک ہے اور جو ہم کہتے ہیں وہ بھی ٹھیک ہے۔ یہاں دو چیزیں ہیں؛ ایک یہ کہ قرآن کریم ہے تو بہت آسان لیکن اس آدمی کے لیے جس نے سیکھا ہو، اگر نہ سیکھا ہو تو پھر بہت مشکل ہے۔ آدمی چلانا جانتا ہو تو جہاز چلانا بھی بہت آسان ہے اور نہ جانتا ہو تو سائیکل چلانا بھی بہت مشکل ہے، اب کوئی بندہ کہے کہ جہاز چلانا بہت آسان ہے، دوسرا کہتا ہے کہ بہت مشکل ہے تو دونوں ٹھیک کہہ رہے ہیں کیونکہ جو کہہ رہا ہے کہ آسان ہے تو اس کے لیے آسان ہے جس نے سیکھا ہو اور جو کہہ رہا ہے کہ مشکل ہے تو اس کے لیے جس نے نہ سیکھا ہو۔ تو قران کریم بہت آسان ہے اس کا معنی ہے کہ جس نے سیکھاہو اور بہت مشکل ہے اس کے لیے جس نے نہ سیکھا ہو۔
اور دوسرا اس کا جواب یہ ہے کہ ایک ہے قرآن کریم کا بطورِ وعظ و نصیحت ہونا اور ایک ہے قرآن کریم کا علمی مضامین کا حامل ہونا۔ پورے قرآن میں یہ نہیں ہے کہ قرآن پاک کے مضامین بہت آسان ہیں، جہاں بھی
﴿یَسَّرۡنَا﴾
کا لفظ آیا ہے تو وہاں لفظ ہے
﴿لِلذِّکۡرِ﴾
یعنی بطور وعظ ونصیحت کے قرآن بہت آسان ہے یعنی اتنا آسان ہے کہ اگر سامع توجہ اور ادب کے ساتھ قرآن کریم سنے اور اس کامعنی بھی سمجھ نہ آئے تب بھی قرآن اثر شروع کر دیتا ہے لیکن یہ ہے وعظ ونصیحت، اور ایک ہیں قرآن کے علمی مضامین تو بطور علمی مضامین کے قرآن کریم آسان نہیں اور بطور وعظ ونصیحت کے بہت آسان ہے۔
اللہ ہمیں یہ باتیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․

سورۃ الزخرف

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
سورۃ الزخرف
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿حٰمٓ ۚ﴿ۛ۱﴾ وَ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ ۙ﴿ۛ۲﴾ اِنَّا جَعَلۡنٰہُ قُرۡءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ۚ﴿۳﴾﴾
حٰم، قسم ہے اس کتاب کی جو بڑی واضح ہے۔ ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں اتارا ہے تاکہ تم سمجھو!
یہاں پر واضح ہونے سے مراد ہے کہ بطورِ وعظ ونصیحت قرآن کریم بڑی واضح کتاب ہے۔ اس کا معنی یہ کرنا کہ قرآن کریم میں احکام بہت واضح ہیں، یہ معنی غلط ہے۔ اگر احکام بہت واضح ہوتے تو استنباط اور اجتہاد کی ضرورت نہ ہوتی لیکن احکام کے لیے استنباط اور اجتہاد کرنا پڑتا ہے۔
Read more ...